18  اگست 2020ء

پی ٹی اے اے ایم اے اسکیم کے ابتدائی تجارتی آغاز کے لئے پر عزم

اسلام آباد (18 اگست، 2020) پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے 2018 میں ورچول ریمیٹینس گیٹ وے (وی آر جی) (پرائیوٹ) لمیٹڈ اور ڈیجیٹل برج (پرائیوٹ) لمیٹڈ (ڈی بی ایل) کو باضابطہ بینکاری خدمات کی فراہمی کے پیش نظر تھرڈ پارٹی سروس پرووائڈر (ٹی پی ایس پی) کے تحت دو لائسنس جاری کیے۔ تاہم، یہ بات سامنے آئی کہ وی آر جی نے قانونی فریم ورک اور لائسنس کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ریگولیٹر کو بدنام کرنے اور ریگولیٹری فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے لئے میڈیا میں باقاعدہ ایک مہم شروع کر دی ہے۔
 پی ٹی اے نے عام عوام کوآسان موبائل اکاؤنٹ اسکیم (اے ایم اے) کی فراہمی کے لئے ٹی پی ایس پی لائسنس یافتگان کو کئی ماہ سے جاری اجلاسوں اور بحث و تمحیث کے ذریعہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین تکنیکی اور مالی امور کے حوالے سے تمام تر سہولیات مہیا کیں۔ تاہم، وی آر جی پی ٹی اے کی کاوشوں کو تسلیم کرنے کے بجائے میڈیا کے ذریعے حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرکے ریگولیٹر کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
در حقیقت، وی آر جی نے اپنی ناکامیوں کا بوجھ ریگولیٹر کی طرف ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ وی آر جی نے میڈیا کے ذریعے الزام لگایا کہ پی ٹی اے نے جنوری 2020 سے تجارتی کارروائیوں کے لئے کمینسمنٹ سرٹیفکیٹ کے اجراء میں تاخیر کی ہے، جبکہ ایس بی پی نے 9 اپریل 2020 کو تجارتی طور پر خدمات کے آغاز کے لئے وی آر جی کو اجازت دی تھی۔ ایس بی پی کی اجازت اور موبائل آپریٹر کے ساتھ تجارتی معاہدے کی تکمیل کے بعد وی آر جی نے 4 اگست 2020 کو کمینسمنٹ سرٹیفکیٹ کے لئے پی ٹی اے کو درخواست دی تھی۔
واضح رہے کہ کمینسمنٹ سرٹیفکیٹ کے اجراء کے لئے تمام آپریٹرز کے ساتھ ٹی پی ایس پی لائسنس دہندہ کے ذریعہ تجارتی معاہدوں کا پیش ہونا ضروری ہے۔ جنوری 2020 میں وی آر جی سسٹم کے پائلٹ لانچ اور معائنہ کے بعد سے، پی ٹی اے بار بار وی آر جی پر زور دے رہا ہے کہ وہ سرٹیفکیٹ کے اجراء کے لئے تجارتی معاہدوں میں مزید تیزی لائے۔ تاہم، وی آر جی گذشتہ 6 ماہ سے 4 اگست 2020 تک ماسوائے صرف ایک آپریٹر یعنی جاز کے علاوہ کوئی بھی تجارتی معاہدہ پیش نہ کر سکا۔ جبکہ جاز کے ساتھ معاہدہ بھی وی آر جی کا دیگر آپریٹروں کے ساتھ معاہدوں پر مشروط ہے۔ وی آر جی کے لائسنس کی شرائط کے تحت، کمینسمنٹ کے لئے وی آر جی کو 30 دن پہلے نوٹس درکار ہے۔ لہذا،کمینسمنٹ سر ٹیفکیٹ کے اجراء میں پی ٹی اے کی طرف سے کوئی تاخیر نہیں کی گئی اور سروسز کے معیار کی شرائط کی تکمیل اور تجارتی معاہدے کے جائزے کے بعد ہی اسے جاری کیا جائے گا۔
وی آر جی کی جانب سے اس حوالے سے بھی مطلع کیا گیا کہ اس نے ایس سی او کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس میں آزاد جموں اینڈ کشمیر اورگلگت بلتستان میں سیل فون سروسز چلانے کا مینڈیٹ بھی شامل ہے۔ جبکہ وی آر جی کو اے جے کے اور جی بی کے لئے ٹی پی ایس پی کا لائسنس بھی نہیں دیا گیا ہے جو کہ ایک لازمی جزو ہے۔ لہذا، ایس سی اوکے ساتھ وی آر جی کا معاہدہ عام لوگوں کے لئے گمراہ کن صورتحال کا باعث بن رہا ہے۔ ٹی پی ایس پی کے لائسنس دہندگان کو بھی اپنے معاہدے ریگولیٹر کے پاس پیش کرنے کی ضرورت ہے، تاہم، وی آر جی کی جانب سے ابھی تک ایس سی او کے ساتھ کوئی معاہدہ پیش نہیں کیا گیا ہے۔ 
مزید برآں، وی آر جی نے واضح طور پر ایک منصفانہ ریگولیٹر پر الزام لگایا ہے کہ وہ دوسرے ٹی پی ایس پی لائسنس دہندگان (ڈی بی ایل) کی حمایت کرتا ہے تاکہ کمینسمنٹ سرٹیفکیٹ پر کارروائی کے لئے 30 دن کے نوٹس سے قبل ریگولیٹر پر دباؤ ڈالا جاسکے، جو کہ 4 ستمبر 2020 کو ختم ہورہا ہے۔جس سے واضح طور پر لائسنس دہندگان کے تجارتی معاہدوں اور تکنیکی ڈیزائن میں موجود کوتاہیاں دباؤ کی حکمت عملی کے ذریعے چھپانے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے. 
واضح رہے کہ پی ٹی اے اے ایم اے اسکیم کے ابتدائی تجارتی آغاز کے لئے پرعزم ہے لہٰذا ٹی پی ایس پی لائسنس کے حوالے سے متعلقہ آئی ایم اور وضاحتوں کے ذریعے تمام تکنیکی پیرامیٹرز کی تکمیل کو یقینی بنایا گیا ہے۔
 
خرم مہران
ڈائریکٹر تعلقات عامہ